اچھے نام

محمد ہاشم قادری مصباحی

ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے وارث عطا فرمائے۔ یعنی اولاد جو نیک و صالح ہو اور اس سے خاندان کی شان بلند ہو اس کے لیے شادی ہونے کے فوراً بعد اللہ کے حضور دعائیں مانگی جانے لگتی ہیں۔قرآن مجیدمیں ارشاد ہوا ہے کہ پیغمبروں نے اللہ سے اولاد جیسی نعمت الٰہی کے حصول کے لیے اپنا دست سوال اُٹھایا ہے۔

قرآن پاک میں اولاد کی دعاء کے لیے کئی جگہ ذکر موجود ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاء رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْن (مریم،آیت نمبر 99) الٰہی مجھ کو لائق اولاد دے۔ ربِ کریم نے ارشاد فرمایا: فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایک عقلمند لڑکے کی (آیت نمبر100) حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ سے دعاء کی ھُنَا لِکَ دُعَا زَکَرِیَّا رَبَّہُ  قَا لَ رَبِّ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّ یَّۃً طَیِّبَۃً  اِنَّکَ لَسَمِیْعُ الدُّعَا اے میرے رب مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطاء فرما بے شک تو دعاء کا سننے والا ہے (آل عمران،آیت نمبر38) دوسری جگہ قرآن میںحضرت زکریا علیہ السلام کی یہ دُعا مذکور ہے:  مریم آیت نمبر (4-5 (اللہ ہمیں وارث عطاء فرما جو میرا کام اٹھا لے میرا بھی وارث ہو اور اولاد یعقوب کے خاندان کا بھی جانشین ہو اور اے میرے رب تو اسے مقبول بندہ بنا لے) معلوم ہوا کہ بیٹے کی دعاء کرنا سنت ِ انبیاء ہے مگر نفس کے لیے نہیں، بلکہ رب کیلئے کہ وہ دیندار ہو، اللہ کا نیک بندہ ہو تاکہ ہمیں قبر میں اس کی نیکیوں سے آرام پہنچے۔ لہٰذا اللہ نے خوشخبری سنائی یٰزَکَرِیّا اِنَّا نُبَشِّرُ کَ بِغُلٰمٍ نِ سْمُہ‘ یَحّیٰ لَمْ نَجْعَلْ لّٰہُ مِنْ قَبْلُ سَمِیّاً ۔ اے زکریا ! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے، ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا ) مریم  آیت نمبر6 ( اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دعاء قبول فرمائی بلکہ اس کا نام بھی تجویز فرمادیا۔ اولاد خواہ لڑکا ہو یا لڑکی، یہ اللہ کی رحمت و نعمت ہے۔ اسلام سے پہلے عرب میں لڑکی کی پیدائش کو بہت خراب مانا جاتا تھا اور اس کو اکثر زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ آج بھی ترقی کا دور کہلانے کے با وجود ہندوستانی معاشرے میں لڑکی کی پیدائش پر اظہار افسوس کیا جاتا ہے ۔ اسلام نے اس کو سختی سے منع کیا ۔

اچھے نام رکھنے اور برے ناموں سے بچنے کی فضیلت

اللہ پاک جو اپنے نام سے ہی یکتا اور بے مثل ہے جس نے نہ صرف اس کائنات رنگ و بو کو پیدا فرمایا، بلکہ اس کائنات کو حسن و خوبصورتی کے سب سے اعلیٰ نمونہ انسان کو تخلیق (پیدا) فرمایا اور پھر اسے سب سے پہلے خوبصورت نام آدم سے نوازا اور اس طرح کائنات ارضی کے ہر ذرے کی ابتدا نام سے ہوئی۔ انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر چیز میں حسن و جمال کو پیش نظر رکھا جائے اس لیے اللہ پاک نے انسان کو بہترین ساخت عطا فرمائی: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَا نَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْم ’’ ہم نے انسان کو عمدہ ساخت میں پیدا کیا ‘‘ لہٰذا والدین کا فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کی نگہداشت اور پرورش اچھے انداز میں کریں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں کے نام بھی اچھے رکھیں۔ اچھے نام اچھی علامت کا مظہر ہوتے ہیں اور اچھے نام اللہ عزو جل کو پسندیدہ ہے۔ ہمارے آقا حضرت محمدﷺ نے اچھے نام رکھنے اور بُرے ناموں سے گریز کی بار بار تلقین فرمائی ہے آپﷺ کا ارشاد ہے :اللہ تعالیٰ کو دو نام بہت پسند ہیں اور وہ ہیں عبداللہ اور عبدالرحمٰن ۔اس لیے یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ نام خوبصورت با معنی اور ہر لحاظ سے جامع ہو اور پکارتے وقت پورا نام پُکارا جائے۔ اس لیے کہ نام ہی ایک انسان کو دوسرے انسان سے علاحدہ پہچان دیتا ہے ۔اور انسان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔

 اچھے ناموں کے اثرات

آج کل عام مزاج بنتا جا رہا ہے کہ بچوں کے ناموں میں جدت ہو، ایسا نام رکھا جائے کہ کسی اور کا نہ ہو، خواہ اس کا مفہوم و معنیٰ کچھ بھی نکلتا ہو، حالانکہ پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ سمو ابا سماء الأ نبیاء ‘‘ (ابو دائود) انبیاء علیہ السلام کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھو، اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے اپنے آخری صاحبزادے کا نام ابراہیم رکھا تھا جو حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے تھے۔ ایک حدیث پاک میں حضور ﷺ کا پاک ارشاد ہے ’’ تدعون یوم ا لقیٰمۃ باسمائکم و اسماء آبائکم فا حسنوا أسماء کم ‘‘(مسند احمد)  قیامت کے دن تمہیں اپنے آباء کے نام سے پکارا جائے گا، لہٰذا تم اچھے نام رکھا کرو۔ اللہ کے رسول محسنِ کائنات ﷺ نے بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے بعد آپ کے کان میں آذان دی منھ میں لعابِ دہن ڈالا اور آپ کے لیے دعاء فرمائی۔ پھر ساتویں دن آپ کا نام حسین رکھا اور عقیقہ کیا۔ حدیث پاک میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبّر اور شبیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا نام انہیں کے نام پر حسن اور حسین رکھا (صواعق محرقہ، صفحہ 118) سر یانی زبان میں شبّر اور شبیر اور عربی زبان میں حسن اورحسین دونوں کے معنیٰ ایک ہیں۔ احادیث میں اچھے نام جس سے عبدیت کا اظہار ہو اسے اچھا قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ عبداللہ اور عبد الرحمٰن اللہ کے نزدیک و رسول اللہ ﷺ کے نزدیک پسندیدہ نام ہیں، (مسلم شریف) والدین پر اولاد کے حقوق بہت ہیں ۔ اچھا نام رکھنا یہ بھی حقوقِ اولاد میں سے ہے۔ جب بچہ پیدا ہو فوراً داہنے کان میں آذان اور بائیں کان میںاقامت کہے کہ ظل شیطان و اُم الصبیان سے بچے گا۔ ہر بچہ کا نام رکھے۔ بُرا نام نہ رکھے کہ فالِ بد ہے۔ عبداللہ، عبدالرحمٰن، احمد وغیرہ نام رکھے۔ انبیاء کرام یا اپنے بزرگوں میں جو نیک گذرے ہوں ان کے نام پر رکھے کہ باعث برکت ہے۔ خصوصاً وہ نام جو حضور پاک ﷺ کے پاک نام ہیں ۔ اس مبارک نام کی بے پایاں برکت بچہ کی دنیا و آخرت میں کام آتی ہے۔

بُرے ناموں کو اچھے ناموں سے بدلنا

حضور ﷺ اچھے نام رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ بلکہ نام کے معنیٰ میں اگر اچھائی نہ ہو یا اس میں شبہہ ہو تو اسے بدل دیا کرتے تھے۔حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کا نام ’’ برۃ ‘‘ تھا جس کے معنی نیکوکار ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان کا نام اس لیے تبدیل فرما دیا کہ اس میں اپنی تعریف کا پہلو نکلتا ہے۔ اسکی وجہ سے نفس کہیں دھوکہ نہ دے دے ، لہٰذا آپ کا نام زینب رکھا۔ اسی طرح ایک صحابی کا نام ’’ حزن ‘‘ تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان کا نام اس لیے بدل دیا کہ اس کے معنیٰ سخت زمین کے ہوتے ہیں’’ سہل ‘‘ نام رکھ دیا۔ جس کے معنیٰ نرم ہونے کے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ اچھے نا م سن کر خوش ہوتے تھے اور اس کے اثرات کے متمنی ہوتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر معاملہ الجھا ہوا تھا، قریش کی جانب سے ثالثی کے لیے سہیل آئے تو حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کون ہیں۔ بتایا گیا کہ سہیل ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے ہمارے معاملہ کو آسان کر دیا اور پھر انہیں کے ذریعہ صلح حدیبیہ کا تاریخ سازمعاہدہ وجود میں آیا جس کو رب تعالیٰ نے فتح مبین سے تعبیر کیا۔

حضور اکرم ﷺ نے متعددصحابہ اکرام رضی اللہ عنہ‘ کے نام تبدیل فرمائے ہیں تاکہ نئے نام اور اسلام لانے سے ان کے کردار میں ناموں کے معانی کے لحاظ سے تبدیلی اور برکت شامل ہو جائے اور وہ سر تاپا اسلامی رنگ میں ڈھل جائیں اور نیکی کا مرقع بن جائیں۔ سیرت کی کتابوں میں بہت سے واقعات موجود ہیں ۔ چند ملا حظہ فرمائیں  ایک صحابی رضی اللہ عنہ‘ کا نام اسود (کالا، گرد آلود، تاریک) سے بدل کر ابیض (سفید) رکھ دیا۔ اسطرح ایک صحابی کا نام الجبار (جبر و ظلم کرنے والا) سے بدل کر عبد الجبار (جبار کا بندہ) رکھ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ‘ کا نام عبد الکعبہ (کعبہ کا بندہ ) سے تبدیل کر کے عبداللہ (اللہ کا بندہ) رکھ دیا۔ مشہور صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام عبد الشمس سے بدل کر عبد الرحمٰن رکھ دیا۔اسطرح آپ ﷺ نے عاصی، عتلہ، حکم، غراب، حباب کے نام تبدیل فرمائے اور احرام کو زرعہ، عاصیہ کو جمیلہ اور برہ کو زینب سے بدل دیا۔ (سنن ابو دائود) حضرت عمر رضی اللہ عنہ‘ کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ تھا جسے آپ ﷺ نے بدل کر جمیلہ رکھ دیا۔

یہ بات ذہن نشیں رہے کہ صحیح اور درست نام نہ رکھنے سے بچے کی شخصیت پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے نام ایسا رکھنا چاہئے کہ جب بچہ بڑا ہو تو اسے اپنے نام پر فخر محسوس ہو اور فخر اسی وقت محسوس ہوگا جب اس کا اچھا اسلامی نام رکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن بدترین ناموں سے اس شخص کا نام ہوگا جس کو شہنشاہ کہتے ہونگے۔ اللہ کے نزدیک بہترین نام عبداللہ اور عبد الرحمٰن اور زیادہ اچھے نام حارث اور ہمام احمد، محمد۔ جبکہ بدترین نام حرب اورمرہ ہن ہونگے۔ (ابودائود شریف) حضرت شریح بن حانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد اپنی قوم کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے انکا نام دریافت کیا۔ انہوں نے جواب میں عرض کیا کہ میرا نام ابو الحکم ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا، ’’حکم خدا کے قبضہ و اختیار میں ہے۔ تم نے ابو الحکم کنیت کیوں مقرر کی ہے ‘‘ انہوںنے کہا کہ میری قوم میں جب بھی کسی معاملہ میں اختلاف ہوتا ہے تو فریقین میرے پاس فیصلے کے لیے آتے ہیں اور میں ان کے درمیان ایسا فیصلہ کر دیتا ہوں کہ وہ تمام راضی ہو جاتے ہیں اور میرے حکم کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ لوگوں کے درمیان فیصلہ اور حکم کرنا بہت اچھی بات ہے تمہارے کتنے بچے ہیں ‘‘ انہوں نے کہا کہ تین بیٹے، شریح، مسلم اور عبداللہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا بس آج سے تمہاری کنیت ابو شریح ہے۔ (نسائی) اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نام کی معنویت زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اچھی عرفیت اچھے نام سے کردار و شخصیت پر اچھا اثر پڑتا ہے اور برے نام بری عرفیت سے برا اثر ہوتا ہے۔

مدینہ منورہ کو پہلے یثرب کہتے تھے۔ اس کے معنی میں جبر و زیادتی اور الزام کا مفہوم پایا جاتا ہے، اس لیے آپ ﷺ نے اس کا نام طابہ اور طیبہ رکھا۔آپ ﷺ نے تاکید کی یثرب کو طیبہ (خوشگوار ،عمدہ )کہا جائے۔ مدینہ کے معنیٰ شہر کے آئے ہیں۔ چونکہ یہ مدینتہ الرسول ﷺ ہے اس لیے اس کا نام ہی مدینہ پڑ گیا۔ اب اگر بغیر کسی اضافت مدینہ کہا جائے تو اس سے مراد مدینتہ الرسول ﷺ طیبہ ہی ہوگا۔ مدینہ میں بخار کی وبا (بیماری) عام تھی، بڑی شدت کا بخار ہوتا تھا۔ اکثر آنے والے اس میں مبتلا ہو جاتے تھے، نووارد اسکی زد میں آتے تو وہ جلد ہی وہاں سے رخصت ہونا چاہتے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے مدینہ کی مشقتیں (تکلیفیں) جھیلنے پر جنت کی بشارت سنائی، اور اس کا نام طیبہ رکھدیا تو نام بدلنے کی برکت سے مدینہ منورہ کی فضاء اللہ کے فضل و کرم سے خوشگوار ہو گئی۔

نام رکھنے میں غلو کرنا

اکثر یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ جب کسی کے یہاں بچہ یا بچی پیدا ہوتی ہے تو سب سے پہلے جس مرحلے میں والدین کا سابقہ پڑتا ہے وہ اس کا نام رکھنا ہوتا ہے جس کی روشنی میں بچہ سب کے لیے قابل محبت، قابل توجہ اور پرکشش بن سکے۔ اور اسکے نام سے خاندان کی عزت و وقار بڑھے۔ خاندان بھر میں ہر فرد اپنی اپنی مرضی کا نام تجویزکرتا ہے جو نام تجویز (Choice) ہوتا اس کے معانیٰ پر غور نہیں کیا جاتا حالانکہ کسی بھی نام کے اثرات اس کے معانیٰ کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیںاور معنیٰ ہی شخصی کردار کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح اس کے نام سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچہ یا بچی کس مذہب اورکس قوم سے تعلق رکھتا ہے اور یہ کہ اس کا نام شرعی اسلامی ہے یا نہیں؟ اور یہ نام اس کے لیے موزوں بھی ہے یا نہیں؟ اسی لیے اسلام نے معانیٰ کے اعتبار سے اچھا نام رکھنے کا حکم دیا تاکہ بچے کی زندگی کی پہلی اینٹ درست طور پر رکھی جائے۔ نام رکھنے میں غلو کی حد تک یکساں اوزان کا خیال رکھا جاتا ہے یعنی سارے بچوںاور بچیوں کا نام ہم وزن ہو، حالانکہ ناموں کے سلسلے میں یہ التزام غیر ضروری ہے۔کبھی کبھی اس کی پابندی معلوم ہونے لگتی ہے۔ ایک صاحب کے چند لڑکے ہیں ایک کا نام شمیم ہے، دوسرے کا نام تسلیم ہے تیسرے کا نام کریم ہے چوتھا بچہ پیدا ہواتو انہیں یہ سوجھاکہ اس بچے کا نام قرآن پاک سے اسی وزن پر رکھیں گے۔چنانچہ تلاش بسیار کے بعد انہیں سورہ القلم میں زنیم لفظ مل گیا۔ انہوں نے بغیر معنیٰ پر غور کیے ہوئے ہم وزن نام زنیم رکھدیا۔ کچھ دنوں بعد ان کے یہاں ایک عالم ِدین مہمان ہوئے۔ انہوں نے میزبان کو اپنے لاڈلے بچے کو زنیم کہہ کر پکارتے ہوئے سنا۔ اس پر انہیں بڑا تعجب ہوا کہ باپ اپنے بیٹے کو خود زنیم کہہ رہاہے، تعجب کی بات ہے۔ لیکن تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس بچے کا نام ہی زنیم ہے۔ چنانچہ عالم صاحب نے دریافت کیا کہ ٓاخر آپ نے یہ نام کیوں رکھا ہے۔ انہوں نے بڑی مسرت کے ساتھ فرمایا کہ اصل میں میں نے اپنے اس بچے کے نام کے متعلق یہ سوچا کہ اپنے دیگر بچوں کے ناموں پر ہم وزن ایک ہی طرح کا نام ہو اور تمنا یہ بھی تھی کہ وہ نام قرآن پاک سے ہو۔ بہت تلاش کے بعد یہ نام سورہ القلم میں مجھے مل گیا اور میں نے یہ نام رکھدیا۔ مہمان عالم نے کہا ابلیس، ابولہب اور فرعون بھی تو قرآن میں ہیں، کیا یہ نام کوئی رکھنا پسند کرے گا۔ بالآخیر جب قرآن میں  معنیٰ دیکھا گیا تو زنیم کے معنیٰ حرام زادے کے ہیں۔ مہمان عالم نے کہا کہ کیا کوئی یہ سننا پسند بھی کر سکتا ہے۔ میزبان کو بڑی پشیمانی ہوئی اور اس بچے کا نام بدل دیا گیا۔ آج کل نام رکھنے میں ہم سے غلطیاںہو رہی ہیں جس سے ہماری تہذیب متاثر ہو رہی ہے۔ اس سے ہمیں بچنا چاہئے۔

نام بگاڑنا گناہ ہے

بچوں کے حقوق میں سے یہ ہے کہ ان کا نام اچھا رکھا جائے اوراچھے نام کو بلاتے وقت بھی ملحوظ رکھا جائے۔ اسی طرح نام بگاڑنا بھی گناہ کی بات ہے۔ قرآن پاک میں اسے بِئسَ لاِْسْمَ الْفُسُوْق کہا گیا ہے،لہٰذا کسی کے نام کو بگاڑ کر پکارنا نہیں چاہئے اس میں خود گھر والوں کی طرف سے کوتاہی ہوتی ہے، وہ پیار میں مُخفف (Short) کرتے ہیں اور پھر وہی نام بن جاتاہے۔ اس سے پرہیز لازم ہے۔ حضور ﷺ نے ایک صحابی کا نام پوچھا صحابی نے کہا اصرم جس کے معنی کانٹے کے آتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تمہارا نام اصرم نہیں بلکہ زرعتہ ہوگا، جس کے معنیٰ کھیتی اور جود و سخا کے ہوتے ہیں۔ بعد میں وہ صحابی اس نام سے معروف ہوئے۔ لہٰذا ہمیں اچھے ناموں کا التزام کرنا چاہئے۔ مذہب اسلام یہ چاہتا ہے کہ اسکے ماننے والوں کی اولاد نیک اور مسلمان ہوں۔ بچوں کی پرورش بہتر طریقے سے کی جائے اور اولاد جو نعمتِ الٰہیہ ہے اسکی قدر کی جائے۔ تاکہ وہ بڑا ہو کر ملک و سماج اور خود والدین کیلئے نعمت ثابت ہو۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اولاد کی پرورش اور نام رکھنے میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے حکم اور خوشنودی کا خیال ہمیشہ دل میں جاگزیں فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اسلامی طرز زندگی گذارنے اورعمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

مشمولہ: شمارہ جون 2014

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau