جمہوریت بطورِ تصور اپنے وعدوں میں حسین لیکن عمل درآمد میں پیچیدہ ہے۔ اپنے بے پناہ تنوع اور صلاحیت کے ساتھ ہندوستان کو مثالی طور پر جمہوری نظریات کا مینار بننا چاہیے۔ تاہم تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری جمہوریت اگرچہ اپنی شکل میں متحرک ہے لیکن اپنے بنیادی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے ہنوز سرگرداں ہی ہے۔ کروڑوں لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے جو نظام برپا کیا گیا اکثر وہ ان کی پوری طرح نمائندگی کرنے سے قاصر رہتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی نہ کوئی شنوائی ہوتی ہے، نہ وہ منظرنامے میں نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان کی نمائندگی ہو پاتی ہے۔
کھوکھلے وعدوں پر بھروسہ کب تک؟
یہ مسئلہ ہندوستان کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس کا آج بہت سے جمہوری ممالک کو سامنا ہے۔ مساوات، عدل اور انصاف پروری کے وہ اصول جن کا جمہوریت وعدہ کرتی ہے، ہماری مٹھی سے پھسلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن کیا ان اصولوں کو بحال کرنے کی کوئی صورت ہوسکتی ہے، جو اسے یقینی بنائے کہ تمام شہریوں کی آواز سنی جائے اور انصاف اور مساوات محض نظریات نہ رہیں بلکہ حقیقت بن جائیں؟
ہندوستان نے عالمی اقتصادی منظر نامے پر مرکزی دھارے کی قوم بننے کی سمت میں اہم پیش رفت کی ہے اور اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مانا جاتا ہے لیکن وطن عزیز معاشی، تعلیمی اور معاشرتی عدم مساوات سے دوچار ہے۔ ان خلیجوں کو پاٹنے کے بجائے وہی جمہوری نظام اکثر انھیں گہرا کرتا ہے۔ غربت، معیاری تعلیم تک رسائی کی کمی اور سماجی تقسیم جیسے چیلنج ایک ایسے نظام میں سنگین تر ہوتے چلے جاتے ہیں جو خدمت اور مساوات پر طاقت اور مراعات کو ترجیح دیتا ہے۔
دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں انتخابات، جن کا مقصد عوام کی امنگوں کی عکاسی کرنا تھا، اکثر طاقتوروں کے عزائم کو بڑھاوا دیتے ہیں جب کہ اکثریت نظر انداز ہوجاتی ہے۔ ’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ‘ کا انتخابی نظام نمائندگی کو کچل دیتا ہے، بہت سے امیدوار معمولی ووٹ شیئر کے ساتھ جیت جاتے ہیں جب کہ آبادی کے بڑے حصے کو نمائندگی نصیب نہیں ہوتی۔ المیہ اس سے کہیں بڑھ کر ہےکہ بہت سے لوگ جو اس ناقص نظام کے بدترین انجام سے دوچار ہیں، ان کے نزدیک وقتاً فوقتاً ہونے والے انتخابات ہی جمہوریت کا واحد راستہ ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ حقیقی جمہوریت کا مطلب ایسی حکم رانی ہے جو شمولی، جواب دہ اور انصاف پر مبنی ہو، جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر آواز اہمیت رکھتی ہے اور کوئی بھی گروہ پیچھے نہ رہے۔ جمہوریت جس کا تصور ایک ایسے نظام کے طور پر کیا گیا تھا جس میں رہ نما عوام کے خادم ہوں، انصاف کے علم بردار ہوں، اور اجتماعی بہبود کے لیے کام کریں۔ حقیقت کی دنیا میں یہ نظام ان نیتاؤں کے لیے ایک سیڑھی کا کام دیتا جو عوام کے خادم کی حیثیت سے نہیں بلکہ ناقص نظام سے فائدہ اٹھانے والے کے طور پر اقتدار میں آتے ہیں۔ جمہوریت کے وعدے بڑی حد تک تشنہ تکمیل ہیں، حکم رانی ذاتی عزائم اور ذاتی مفادات پر مبنی ہے۔
جدید جمہوریت ایک ایسا ادارہ بن گئی ہے جو نظریاتی طور پر تو رومانی ہے لیکن عملی طور پر انصاف اور مساوات فراہم کرنے سے بہت دور ہے۔ ان خامیوں کے باوجود ہندوستانی عوام کا استقلال اور ان کے اتحاد کے فطری جذبے نے ملک کو متحد رکھا ہے۔ تاہم یہ لچک نظام کی اس خرابی کو ٹھیک کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اب یہ پوچھنے کا وقت ہے کہ کیا ہم ایک ایسے نظام پر انحصار جاری رکھ سکتے ہیں جو بہت سے لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے؟ کیا کوئی ایسا متبادل ہے جو حکم رانی کو عدل ، انصاف اور شمولیت کے لازوال اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے؟
اسلامی جمہوریت: ایک اعلی وژن
اسلامی جمہوریت جدید انتخابی نظام کا ایک خالص اور زیادہ بامعنی متبادل پیش کرتی ہے۔ اس ماڈل میں قیادت سیلف پروموشن نہیں کرتی یا اپنے لیے مہم نہیں چلاتی بلکہ دیانت داری، اعلیٰ سطح کی اہلیت اور اخلاقی راستبازی کی اجتماعی شناخت کے راستے سے ابھرتی ہے۔ قائد خود کو امیدوار کے طور پر پیش نہیں کرتے۔ بلکہ انھیں انصاف، مساوات اور معاشرتی بہبود کے لیے ان کی غیر متزلزل وابستگی کی بنا پر ان کے عوام کی جانب سے انھیں آگے بڑھایا جاتا ہے۔
یہ نمونہ قرآنی اصول سے مطابقت رکھتا ہے:
مسلمانو ! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے۔ (النساء: 58)
اسلامی جمہوریت کے بنیادی اصول
اسلامی جمہوریت اخلاقی حکم رانی پر استوار ہے، جہاں قیادت ایک امانت ہے، اور عدل اس کا رہ نما اصول ہے۔ جدید جمہوری نظاموں کے برعکس جو اکثر اقتدار کے بھوکے افراد کو نوازتے ہیں، اسلامی حکم رانی اس کو یقینی بناتی ہے کہ قیادت سب سے اہل، با اخلاق اور خدا آگاہ افراد کو سونپی جائے۔ اسلامی جمہوریت میں قیادت کے انتخاب کے بنیادی اصول درج ذیل ہیں:
قیادت ایک امانت
اسلام میں حکم رانی استحقاق نہیں بلکہ ایک عظیم ذمہ داری ہے۔ قیادت امانت کی ایک شکل ہے جو صرف ان لوگوں کو دی جانی چاہیے جو اس کے اہل ہوں۔ حکم راں عوام کے نمائندے اور خادم ہوتے ہیں، آقا نہیں۔ گورننس ذاتی یا پارٹی مفادات پر عوامی فلاح کو ترجیح دیتی ہے۔ جدید انتخابی نظاموں کے برعکس جہاں سیلف پروموشن اور اقتدار کی سیاست غالب ہے، اسلامی جمہوریت یقینی بناتی ہے کہ قائدین کا انتخاب ان کی اقتدار کی خواہش کے بجائے خدمت کرنے کی اہلیت کی بنیاد پر کیا جائے۔
خدا آشنا قیادت
قرآن مومنوں کو تاکید کرتا ہے:
اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ (النساء: 135)
ایک انصاف پسند معاشرے کو تقویٰ رکھنے والے قائدوں کی ضرورت ہوتی ہے یعنی ایسے افراد جو عوامی پڑتال سے زیادہ الٰہی احتساب سے ڈرتے ہوں۔
اسلامی جمہوریت مقبولیت پر دیانت داری کو ترجیح دیتی ہے۔ لیڈر کا اخلاقی کمپاس اس کی روحانی اور اخلاقی وابستگی سے تشکیل پاتا ہے اور منصفانہ حکم رانی کو یقینی بناتا ہے۔
بد عنوانی، دھوکہ دہی اور جانب داری کی سختی سے مذمت کی جاتی ہے۔ جدید نظاموں کے برعکس جہاں مالی اور میڈیائی رسوخ انتخابات کا تعین کرتے ہیں، اسلامی حکم رانی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ دولت اور طاقت اخلاقی قیادت سے بالاتر نہ ہوں۔
کمیونٹی کا انتخاب
اسلامی جمہوریت میں لیڈر خود کو فروغ نہیں دیتے بلکہ اہلیت کی بنیاد پر عوام کے درمیان سے ابھرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’اللہ کی قسم، ہم اس منصب پر کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کرتے جو اس کا طلب گار یا خواہش مند ہو۔‘‘ (صحیح مسلم)
اہل افراد کو معاشرے کی طرف سے نامزد کیا جاتا اور ترغیب دی جاتی ہے، یہ یقینی بناتے ہوئے کہ حکم رانی عوامی اعتماد پر مبنی ہو، نہ کہ سیاسی عزائم پر۔ قائدوں کا انتخاب ان کی مالی یا سیاسی قوت کے بجائے ان کے کردار، علم اور عوام کی خدمت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ یہ اصول جدید سیاست کی طاقت کی بھوکی فطرت کا قلع قمع کرتا ہے، جہاں امیدوار اکثر ووٹ حاصل کرنے کے لیے خطیر سرمایہ صرف کرتے ہیں۔
انتخابات سے آگے احتساب
جدید جمہوریت احتساب کے لیے ہر چند سال بعد انتخابات پر انحصار کرتی ہے، لیکن اسلامی جمہوریت یہ یقینی بناتی ہے کہ لیڈر عوام اور خدا کے سامنے ہمہ وقت جواب دہ اور شوریٰ کے تابع رہیں، جہاں فیصلہ سازی میں علما، ماہرین اور عوام شامل ہوتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے: جو اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔ (الشوری: 38)
یہ مشاورت علامتی نہیں ہے، یہ یقینی بناتی ہے کہ پالیسیاں لوگوں کی ضروریات کی عکاسی کرتی ہوں۔
کمیونٹی کونسلیں باقاعدگی سے شہریوں کی شمولیت کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں۔
یہ اصول آمرانہ فیصلہ سازی کو روکتا ہے اور شراکتی حکم رانی (particpatory governance) کو یقینی بناتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور عنصر جو یہاں اہم ہے وہ یہ کہ اگر لیڈر اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہتے ہیں تو انھیں ایک منصوبہ بند میکانزم کے ذریعے ہٹایا جاسکتا ہے۔ اس سے آمریت، بدعنوانی اور نااہلی کا سدباب ہوتا ہے اور حکم راں عوام پر حکم رانی کرنے کے بجائے ان کی خدمت کرتے ہیں۔
شمولی نمائندگی
اسلامی جمہوریت یہ یقینی بناتی ہے کہ حکم رانی میں تمام آوازیں، خاص طور پر پچھڑے افراد شامل ہوں۔
قرآن مجید میں تاکید کی گئی ہے:
اے لوگو جو ایمان لائےہو ، انصاف کے علمبردار 1 اور خدا واسطے کے گواہ بنو2 اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ (انساء: 135)
ایک منصفانہ نظام ذات پات، طبقے یا صنف سے قطع نظر تمام کمیونٹیوں کی منصفانہ نمائندگی کو یقینی بناتا ہے۔ سماجی انصاف ایک بنیادی ترجیح ہے اور اس لیے اسلامی حکم رانی عدم مساوات اور جبر کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسلامی حکومت کی بنیاد عدل و انصاف پر ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ 1 کسی گروہ کی دُشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھرجاوٴ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ ‘‘ (المائدہ: 8)
اسلامی جمہوریت جدید جمہوریت کے وعدوں اور ان کی تکمیل کے درمیان خلیج کو پاٹتی ہے۔ یہ صرف رائے دہندگی تک محدود نہیں بلکہ ایک منصفانہ معاشرے کی تشکیل کرتی ہے جہاں حکومت یہ یقینی بناتی ہے کہ ایسی پالیسیاں وضع کی جائیں جو معاشی شفافیت، سماجی بہبود اور سب کے لیے مساوی مواقع کی ضامن ہوں۔ اسلام میں امتیازی سلوک، اقربا پروری اور استحصال سخت ممنوع ہیں اور اخلاقی ذمہ داری اور اخلاقی معیارات کو فروغ دیا جاتا ہے۔
اس اسلامی جمہوریت کو اس کی مثالی شکل میں نافذ کرنے کے لیے انقلاب انگیز انتخابی اصلاحات اور نچلی سطح کی تحریکوں کو بیک وقت مضبوط بناتے ہوئے بہت جرات مندانہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
فوری مطلوبہ اصلاحات
آئیے سب سے پہلے ہندوستان کے انتخابی نظام میں تبدیلی لانے والی اصلاحات پر بات کرتے ہیں تاکہ اس کی بنیادی خامیوں کو دور کیا جاسکے اور یقینی بنایا جاسکے کہ جمہوریت اپنے حقیقی مقصد یعنی انصاف، مساوات اور سب کے لیے نمائندگی کی تکمیل کرے۔ مندرجہ ذیل اقدامات زیادہ شمولی، شراکتی اور جواب دہ جمہوریت کے حصول میں مدد کرسکتے ہیں۔
واپس بلانے کا حق: شہریوں کے پاس اپنے منتخب نمائندوں کو واپس بلانے کے طریقہ کار کی فراہمی کے ذریعے جواب دہ بنانے کا اختیار ہوگا۔ اس سے رائے دہندگان کو ان قائدوں کو ہٹانے میں مدد ملے گی جو اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں یا عوامی مفاد کے خلاف کام کرتے ہیں۔ اس طرح کے احتساب کو ممکن بنانے سے، نمائندوں کو اپنی مدت کے دوران شفاف، جواب دہ اور اپنے فرائض سے وابستہ رہنے پر مجبور کیا جائے گا۔
دیہی جمہوریت کے اصولوں کو شامل کرنا: جے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا کی قیادت والی تحریکوں سے ترغیب حاصل کرتے ہوئے اصلاحات کو پنچایت جیسے دیہی اداروں کو بااختیار بنانے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ ان قائدوں نے ایک ایسی جمہوریت کا تصور کیا جہاں گاؤں خود کفیل ہوں اور حکم رانی میں سرگرمی سے حصہ لیں۔ پنچایتی راج اداروں کو مالی خودمختاری اور فیصلہ سازی کے اختیار کے ساتھ مضبوط بنانے سے دیہی حکم رانی شراکتی جمہوریت کا نمونہ بن سکتی ہے۔
مشاورتی اور شراکتی جمہوریت: رائے دہندگی پر مرکوز روایتی ماڈل سے آگے بڑھ کر ایک زیادہ مشاورتی نظام کی طرف بڑھنا ہوگا جہاں شہری فیصلہ سازی میں فعال طور پر حصہ لیں۔ پالیسی سازی میں متنوع آوازوں کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے ٹاؤن ہال، شہری اجتماعات اور عوامی مشاورت کے لیے پلیٹ فارم بنائے جاسکتے ہیں۔ اس سے منتخب نمائندوں اور رائے دہندگان کے درمیان فرق کو ختم کیا جاسکے گا اور اعتماد اور تعاون کو فروغ ملے گا۔
متناسب نمائندگی: فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ نظام کو متناسب نمائندگی کے ساتھ تبدیل کرنا ہوگا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہر ووٹ یکساں طور پر شمار ہو اور حکم رانی ہندوستان کی آبادی کے حقیقی تنوع کی عکاسی کرے۔ اس سے انتخابی نتائج کو مسخ کرنے میں کمی آئے گی اور اقلیتی اور پسماندہ گروہوں کی نمائندگی میں اضافہ ہوگا۔
شفاف انتخابی فنڈنگ: انتخابات میں پیسے اور کارپوریٹ مفادات کے غیر ضروری اثر کو ختم کرنے کے لیے انتخابی مہم کی مالی اعانت پر سخت قواعد و ضوابط نافذ کرنے ہوں گے۔ انتخابات کے لیے عوامی فنڈنگ اور عطیات کے حقیقی وقت (real time)کے انکشاف سے تمام امیدواروں کے لیے یکساں مواقع کو یقینی بنایا جاسکے گا اور بدعنوانی کا سدباب ہوگا۔
پارٹی کی داخلی جمہوریت: سیاسی جماعتوں کے اندر اسلامی جمہوریت کے مذکورہ بالا اصولوں پر داخلی انتخابات کو لازمی قرار دینا ہوگا تاکہ اہل، با اخلاق اور نمائندہ قیادت کے ابھرنے کو فروغ دیا جا سکے۔ اس سے سیاسی خاندانوں یا اشرافیہ کے اندر طاقت کے ارتکاز کو روکا جاسکے گا اور ہر سطح کے قائدوں کو آگے بڑھنے کی ترغیب ملے گی۔
لوکل گورننس کو بااختیار بنانا: اصلاحات کو یقینی بنانا ہوگا۔ بلدیات اور پنچایتوں جیسے بلدیاتی اداروں کو نہ صرف مضبوط بنانا ہوگا بلکہ ایک ایسے فریم ورک کے اندر کام بھی کرنا ہوگا جو شمولیت اور احتساب کو فروغ دے۔ نارائن اور لوہیا کے نظریات سے کام لے کر ڈی سینٹرلائزڈ گورننس کو غور و خوض، کمیونٹی کی شرکت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو ترجیح دینی ہوگی۔
شفافیت کے لیے ٹیکنالوجی کو شامل کرنا: انتخابی عمل کو زیادہ شفاف اور قابل رسائی بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا۔ ووٹنگ کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم، انتخابی مہمات کی ریئل ٹائم مانیٹرنگ، اور بدعنوانی کا سراغ لگانے کے لیے مصنوعی ذہانت کے ٹولز نظام کی ساکھ اور کارکردگی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
اخلاقی قیادت کی تربیت: اخلاقی حکم رانی، سماجی انصاف اور عوامی خدمت پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ مستقبل کے قائدوں کو تیار کرنے کے لیے پروگرام متعارف کروانے ہوں گے۔ نچلی سطح کی تحریکوں کے فلسفے سے استفادہ کرتے ہوئے اس طرح کے اقدامات لیڈروں میں ذمہ داری اور اخلاقی دیانت داری کا احساس پیدا کرسکتے ہیں۔
ان اصلاحات کو نافذ کرکے ہندوستان ایک ناقص انتخابی نظام سے ایک ایسی جمہوریت میں بدل سکتا ہے جو حقیقی معنوں میں اپنے عوام کی امنگوں کی نمائندگی کرتی ہو۔ عدل اور مساوات کے اصولوں پر مبنی ایک شراکتی، مشاورتی اور جواب دہ جمہوریت یہ یقینی بنائے گی کہ کوئی بھی آواز ان سنی نہ رہے اور حکم رانی حقیقی معنوں میں تمام شہریوں کی امنگوں کی عکاسی کرتی ہو۔
مذکورہ بالا انقلاب آفریں اصلاحات کے لیے نچلی سطح پر بہت دور رس تحریکوں کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی تحریکوں کو فروغ دے کر اور مضبوط بنا کر ہم جمہوریت کے اصل مفہوم کے بارے میں کمیونٹی کی سطح پر بیداری پیدا کرکے ایک حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ تعلیم، مکالمے اور کمیونٹی کی شمولیت کے ذریعے شہریوں کو بااختیار بنانے سے احتساب اور شرکت کے کلچر کی تعمیر میں مدد مل سکتی ہے۔
نچلی سطح کی تحریکوں کو مقامی قائدوں کی شناخت اور حمایت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو دیانت داری، عدل اور خدمت کی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ رہ نما تبدیلی کے محرک کے طور پر کام کر سکتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ حکم رانی عوام کی امنگوں کی عکاسی کرے۔
سول سوسائٹی کی تنظیموں، مذہبی اداروں اور تعلیمی اداروں کے درمیان تعاون ان کوششوں کو مزید تقویت دے سکتا ہے۔ مکالمے اور اجتماعی اقدامات کے لیے پلیٹ فارم تشکیل دے کر نچلی سطح کی تحریکیں اصلاحات اور تبدیلی کے لیے طاقتور آلہ بن سکتی ہیں۔
لہذا خوش حال اور پرامن ہندوستان کے لیے آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ملک کی جمہوریت اپنی موجودہ حدود سے آگے بڑھے۔ ایک ایسی قوم کا تصور کیا جائے جو قائدوں کا انتخاب ان کی دولت یا رسوخ کی بنا پر نہیں بلکہ ان کی دیانت داری، قابلیت اور خدا خوفی بنیاد پر کرے۔ ایسی حکم رانی کا تصور کیا جائے جو عدل و انصاف کے قرآنی نظریات کی غماز ہو۔
نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ’’قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے۔‘‘
یہی قیادت کا جوہر ہے۔ ایک ایسا کردار جو خدمت، جواب دہی اور عدل کے حصول سے عبارت ہو۔
- آئیے ہم اپنے آپ سے اور ہندوستان کے لوگوں سے پوچھیں: کیا ہم اس ٹوٹے بکھرے نظام کے ذریعے اپنے مستقبل طے کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟
- کیا ہم اپنے آپ کو جمہوری کہہ سکتے ہیں جب کہ کروڑوں عوام کی نمائندگی نہیں ہوتی؟
- اگر اب نہیں تو کب؟ اگر ہم نہیں تو کون؟
یہ کوئی یوٹوپیائی خواب نہیں بلکہ ان اصولوں کی طرف لوٹنے کا مطالبہ ہے جو ہمارے موجودہ نظام میں ٹوٹ پھوٹ کو ٹھیک کرسکتے ہیں۔ اخلاقیات، عدل اور مساوات پر مبنی حکم رانی کے ماڈل کو اپنا کر ہم ایک ایسے سماج کی تعمیر کر سکتے ہیں جو تمام لوگوں کو مساوی طور پر خدمات فراہم کرے۔
آئیے ہم ایک ایسی جمہوریت کی طرف پہلا قدم بڑھائیں جو حقیقی معنوں میں آگے بڑھے، جو آنے والی نسلوں کے لیے امید کی کرن کا کام کرے!
مشمولہ: شمارہ جون 2025